کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) مقامی حکومتوں، نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) اور پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے مابین تعاون کے فقدان کی وجہ سے غیرقانونی تارکین وطن کے لیے پاکستان جنت بن گیا ہے اور چند ہزارروپوں کے عوض باآسانی پاکستانی شہریت و سفری دستاویزات حاصل کرسکتے ہیں ۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال بنگلہ دیش، ایران، برما اور افغانستان کے شہری ہزاروں کی تعداد میں غیرقانونی طور پر پاکستانی شہریت اور سفری دستاویزات حاصل کرتے ہیں اور ان دستاویزات کی بنیاد پر وہ نہ صرف پاکستان میں سکونت اختیار کرلیتے ہیں بلکہ پاکستانی پاسپورٹ کی بنیاد پر بڑی تعداد میں غیرقانونی تارکین وطن ایمپلائمنٹ اور وزٹ ویزوں پر بیرون ملک جانے میںبھی کامیاب ہوجاتے ہیں اور وہاں غیرقانونی سرگرمیوںمیں ملوث ہوکر پاکستان کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔
ایف آئی اے کے انسداد انسانی سمگلنگ سرکل کے سربراہ اشفاق عالم خان نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ان کے سرکل میں فارن ایکٹ کے درجنوں مقدمات کئی سال سے التوا کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ متعلقہ اداروں کی جانب سے تفتیش میں تعاون نہ کیا جانا اور غیرقانونی دستاویزات کی تیاری کا سارا ملبہ دوسرے اداروں پر ڈالنا ہے۔ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے متعلقہ افسران یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ محکمہ جاتی مروجہ قوانین کے مطابق پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ ہر اس شہری کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے کا پابند ہے جس کے پاس پاکستانی شہریت یا قومی شناختی کارڈ موجود ہے، نادرا کے متعلقہ افسران یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ان کے مروجہ محکمہ جاتی قوانین کے مطابق وہ ہر اس شخص کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے پابند ہیں جس کے پاس یونین کونسل کی جانب سے جاری کردہ پیدائشی سرٹیفیکیٹ اور دیگر دستاویزات موجود ہوں اور شناختی کارڈ اسی وقت جاری کیا جاتا ہے جب کوئی بھی گزیٹڈ سرکاری افسر اس کے فارم کی تصدیق کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہزاروں تارکین وطن ہر سال صرف چند ہزار روپے کے عوض باآسانی پاکستانی شہریت اور سفری دستاویزات حاصل کرتے ہیں، اداروں میں تعینات کرپٹ افسران اور عملہ محکمہ جاتی قوانین کا سہارا لے کر ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت سے بھی محفوظ رہتے ہیں ، اداروں کے درمیان قوانین کافی متصادم ہیں جبکہ فارن ایکٹ کے تحت درجنوں مقدمات ذمے داروں کا تعین نہ کیے جانے کے سبب کئی سال سے التوا کا شکار ہیں۔
0 Comments